اردو ادب کے ارتقا میں علمائے دیوبند کا کردار
از: محمد مزمل کھگڑیاوی ،
متعلّم دارالعلوم دیوبند
سخن
اولیں
دارالعلوم دیوبند کا قیام سرزمین
ہند کے لئے باعث صدافتخار ہے، جس نے ہندوستان کی بنجرزمین کو سرسبزی
وشادابی عطا کی،چنانچہ اس ادارے نے مسلمانوں کی دینی
وقومی روایات کو تحفظ فراہم کرکے، ہر قسم کی آلودگی سے
پاک کیا، بدعات وخرافات کی تاریکیوں میں سنت کی
مشعلیں روشن کیں، باطل کے مقابلے ہر اعتبار سے نبرد آزما ہونے کے لیے
ہزاروں مجاہد، عالم، مفسر، محدث، متکلم، فقیہ، مقرر، مناظر، حفاظ، قراء اور
صوفیا کے ساتھ ساتھ عظیم شہسوارانِ قلم بھی پیدا کیے،
جنھوں نے اپنی قلمی جولانیوں سے طوفانِ تندوتیز کا رخ پھیردیا،
دارالعلوم کی اسی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا انیس
الاسلام قاسمی فرماتے ہیں: سواسو سالہ طویل وقت میں
دارالعلوم نے اردو ادب کی ایک وقیع اور پروقار خدمات انجام دی،اس
میں شعروشاعری بھی ہے، انشاء و نثر نگاری بھی، تصنیف
و تالیف بھی اور خطابت بھی، عربی کتابوں کا ترجمہ بھی،
اور ماہانہ وہفتہ وار اخبار ورسائل بھی، مطالعہ بھی اور اشاعت کے
انتظامات بھی۔(۱)
گلشن
ادب پر بہار قاسمی
اس الہامی ادارے کے سپوت نے جہاں ایمانی
و روحانی کیفیت میں جلا بخشنے کے لئے عربیت سے اپنا
تعلق استوار کیا، وہیں عوام الناس تک پیغام خداوندی
پہنچانے اوراحیائے اسلام کی غرض سے اردو زبان وادب میں بھی
کمال پیدا کیا اور بعضوں نے اسی صحافت و ادب کو شعر وسخن کی
نیرنگیوں سے ایسی رعنائی بخشی کہ جس سے ان کی
تحریر میں غضب کی سحر انگیزی، موجوں کی روانی،
نسیم سحر کی نزاکت، پھولوں کی مہک، کہساروں کی رفعت پیداہوگئی
اور لوگوں کے ذہن ودماغ پر ایسا مقناطیسی اثر چھوڑا کہ ان کے
دل، آپ سے آپ اسلام کی طرف کھینچ آئے۔ تاہم یہاں کا ادب
خالص اسلامی رہا ہے، شعرانہ تخیل، کفر وزندقہ، فلسفیانہ موشگافیاں،
بے وقت کی راگنی، مہمل داستانِ عشق، افسانہ نگاری، ناول نویسی،
لطیفہ گوئی، تذکرئہ بادئہ نوشی، چنچل حسیناؤں کی
خرمستیاں اور قاتل اداؤں سے پاک وصاف؛ بلکہ بے گرد وغبار ہے۔ یہاں
کا ادب قال اللہ وقال الرسول کے مشک وعنبر سے معطرو روح پرور اور انبیاء علیہم
السلام کی تعلیمات سے لبریز ہے، نیز صحابہٴ کرام کی
قربانی، جدوجہد اور حیرت انگیز واقعات کے انمٹ نقوش، رونق قرطاس
بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی دارالعلوم کی ادبی
خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اپنی بات کو دوسروں تک
پہنچانے میں سب سے موٴثر اور پائیدار ذریعہ تحریر
ہے، فرزندانِ دارالعلوم نے اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں
کا لوہا منوایا ہے، علمائے دیوبند کا تصنیفی سرمایہ،
جو تعداد میں دسیوں ہزار کتابوں پر مشتمل ہے ان کی صلاحیت
تحریر کا مظہر ہے، صحافت (ادب) میں علمائے دارالعلوم کے کارناموں سے ایک
تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔(۲)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت
ہے کہ جب علمائے دیوبند نے قلم اٹھایا تو شہنشاہِ ادب، صاحب تخلیق
اور بے مثال انشاء پرداز کی شکل میں نمودار ہوئے، جب ان کی
نگاہِ عارفانہ شعر وسخن پر پڑی تو کہنہ مشق شاعرو سخن پرور کہلائے، مگر تاریخ
نے انصاف سے کام نہیں لیا اور ان بزرگوں کی بے لوث خدمات کو نظر
انداز کردیا۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بزرگوں کی
اعلیٰ کارکردگی (جوعصبیت کے تودے میں دب کر رہ گئی
ہے) سے نسلِ نو کو آشنا کرائیں۔
دارالعلوم
اور شعروسخن
شاعری تحریر میں حسنِ
ادا، زبان میں سلاست و برجستگی پیدا کردیتی ہے،اس کی
اہمیت کی ادنیٰ سی جھلک علامہ انظرشاہ صاحب رحمة
الله عليه کی تحریر میں نظر آتی ہے کہ ”بلاشبہ اسلام میں
اس شاعری کی گنجائش نہیں، جس کے ڈانڈے،فحش گوئی، فحاشی،
جذبات میں ہیجان انگیزی اورحسن و عشق کے ناروا مراحل کی
عکاسی سے ملتے ہوں؛ لیکن اگر واقعی جذبات و خیالات کے حقیقت
پسندانہ مضامین کی ترجمانی، شعری لب ولہجہ میں کی
جائے تو اسلام اس کا مخالف نہیں۔(۳)
چنانچہ علمائے دیوبند کی شاعری
کا محور، خالص وحقیقی رہا ہے، ان حضرات نے اس فن کو پیشہ نہیں
بنایا، جیساکہ دنیا کا رواج ہے، بقول مولانا عبداللہ صاحب: ان
حضرات (علمائے دیوبند) نے شعر کو اپنا پیشہ یا مخصوص فن نہیں
بنایا؛ لیکن شعریت، ذکاوتِ حس اور ذہانتِ فکر کا فطری
جوہر ہے، یہ حضرات، جن کو ذہانت وذکاوت کے بھرپور خزانے عطاہوئے تھے، شعریت
سے تہی دامن کس طرح ہوسکتے تھے، چنانچہ غیراختیاری طور پر
ان بزرگوں کی فکر رسا نے خاص خاص حالات اور خاص خاص موقعوں پر قصیدے،
نظمیں اور غزلیں موزوں کیں۔(۴) اس
کے باوجود ان حضرات نے خود کو کبھی شعراء کی فہرست میں شمار نہیں
کیا۔یہی وجہ ہے کہ حکیم الاسلام رحمة الله عليه ایک
جگہ فرماتے ہیں: نہ میں شاعر ہوں اورنہ شعرگوئی اپنا مشغلہ؛ لیکن
جذبات جب ابھر کر منصہ شہود پر آنے کے متقاضی بن جاتے ہیں تو ان کے
لئے فن شاعری نہ شرط ہوتی ہے، نہ وہ اس کے پابند ہوتے ہیں۔(۵) تاہم علمائے دیوبند کی کہی
ہوئی نظموں کے بحرِ بیکراں میں غوطہ لگانے کے بعد پتہ چلتا ہے
کہ اس کے اندر کیسے کیسے بیش بہا لعل وگوہر موجود ہیں۔
چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب مزید فرماتے ہیں: مولانا محمد میاں
صاحب رحمة الله عليه نے اپنی مشہور تصنیف ”علمائے حق“ جلد اوّل میں،
تعلیمی اور سیاسی ماحول کے لحاظ سے علمائے دیوبند
کے چند دور قرار دئیے ہیں، ہم ادبی نقطئہ نظر سے ہر ایک
دور پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر ایک
دور اپنی آغوش میں اردو کے بہترین ادیب، خطیب اور
شاعر لیے ہوئے ہے۔(۶)
مذکورہ سطور میں علمائے دیوبند
کے کردار پر اجمالی نظر ڈالی گئی ہے، اب علمائے دیوبند کا
شعر وادب سے غیرمعمولی تعلق اور انفرادیت قدرے تفصیل کے
ساتھ حوالہٴ قرطاس کیا جارہا ہے۔
حجة
الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمة الله عليه
خدا نے آپ کو ایک بڑے عالم، عظیم
داعی اور بے باک مناظر کے ساتھ ساتھ فطری شاعر بھی بنایا
تھا، بچپن ہی میں آپ کو یہ دولت ودیعت کردی گئی
تھی، جیساکہ سوانح قاسمی شاہد ہے کہ مولانا لڑکپن ہی سے
فطری شاعرتھے، طبع آزمائی اور فکر وسخن سے دلچسپی لیتے تھے،
بقول مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه: (مولانا) اپنے کھیل اور بعض
قصے کو نظم فرماتے اور لکھ لیتے۔(۷) مولانا
عبداللہ صاحب مزید لکھتے ہیں: خود مولانا مملوک علی صاحب رحمة
الله عليه جو آپ کے سرپرست اور استاذ تھے، شعر وسخن پر قدرت رکھتے تھے اور مفتی
صدرالدین صاحب آزردہ جن سے آپ نے ادب کی کتابیں پڑھی تھی،
وہ غالب کے معاصر اور اردو کے نقاد تھے۔(۸) آپ
کے شعروں میں جو گداز و تاثیر ہے اورجو کیفیت و انشراح ہے
وہ قدیم اور کلاسیکی ادبی سرمایہ سے مکمل آگہی
کا نتیجہ ہے۔(۹)
حضرت
مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه
آپ دارالعلوم کے سب سے پہلے صدرالمدرسین
تھے، جہاں آپ جامع العلوم والفنون اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے وہیں اپنے جذبات
کو شعروسخن کے زیور سے آراستہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔
اسی کی منظر کشی مولانا عبداللہ صاحب کی تحریر سے یوں
ہوتی ہے: آپ کو شعر وسخن سے بھی لگاؤتھا؛ بلکہ یوں کہئے ذوق تھا۔(۱۰) آپ کی بیاضِ یعقوبی
اسی کی آئینہ دار ہے۔ آپ کے اسی سدابہار گلشن سے دو
پھول سپرد قرطاس کیے جارہے ہیں:
(جس
کو نہ سما سکا ہو یہ ارض وسما * اس جائے میں وہ کس طرح سے جائے
سما)
نعتِ نبی صلى الله عليه وسلم میں
بھی آپ کا طویل قصیدہ ہے، جس میں لطافتِ تخیل وسعتِ
نظر، واقفیت، سادگی، شیرینی، جدت سب کچھ ہے:
(اسی
ذات سے ظاہر ہوا یہ سب عالم * ملا ہے آپ کو اس بزم میں پہلا
جام)(۱۱)
حضرت
شیخ الہند رحمة الله عليه
گنجینہٴ علم وادب، سیاسی
قائد، بے مثل محدث ومفسر، اسیرمالٹا، دوسری تحریک آزادی
کے بانی وسربراہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه
کی ذات گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں، تفسیر، حدیث،
فقہ کے سرمائے میں اردو شاعری کا بھی اچھا ذخیرہ آپ کی
یادگار ہے، موزونیت طبع، ذوقِ نظم اور شاعری کا مذاق، زمانہ
طالب علمی سے تھا، بلند تخیل، لطیف تغزل، عمیق فلسفہ،
جذبات کی صداقت، بیان کی ندرت آپ کے کلام میں جان ڈالتے ہیں۔(۱۲) شعروسخن میں آپ کی شخصیت
کسی حذاق شاعر سے کم نہیں، جیساکہ اسیران مالٹا میں
ہے: ”(آپ) جب کوئی اعلیٰ درجے کا شعر تالیف فرماتے تو
طبقہ علماء تو درکنار حذاق شعراء بھی عش عش کرجاتے تھے۔(۱۳) اسی پر مولانا اسیرادروی
صاحب مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ ”یہ شعروشاعری طبعی
مناسبت کی وجہ سے تھی۔(۱۴)
اسی
طرح اردو میں نثری حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا
عبداللہ صاحب یوں گویا ہیں: آپ کی عبارت صاف ستھری
اور سلجھی ہوئی ہوتی ہے۔صفائی اور سلاست پر کہیں
کہیں صنائع اور بدائع کی رنگینی، دلکشی و شیفتگی
پیدا کردیتی ہے۔(۱۵)
نثری
نمونہ: میں نے پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں
آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک
گمشدہ متاع کو یہاں پاتا ہوں۔ شعری آئینہ: نور خورشید
چمکتا ہے ہر ذرّے میں # چشم بینا ہوتو ہر شئی میں ہے جلوہ
تیرا۔(۱۶)
حکیم
الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه
جہاں لوگ آپ کو شیخ الکل، مجدد ملت،
مصلح امت سے جانتے ہیں تو دوسری طرف، آپ عظیم ترین مصنف
اور قلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔ آپ اصلاح
امت کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تصنیف وتالیف میں منہمک رہتے تھے،
چھوٹی بڑی ۸۷۷ کتابیں
آپ کے قلم سے نکلیں اور مقبولِ عام وخاص ہوئیں۔(۱۷) آپ کی تمام کتابوں میں
”بیان القرآن“ بوستانِ اردو کی عظیم ادبی شاہکار ہے جس نے
مخالفوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا، جس کی لطف وشیرینی
کا اندازہ مطالعہ ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بقول علامہ کشمیری
رحمة الله عليه: (میں) ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ اردو کا دامن علم
و تحقیق سے خالی ہے؛ لیکن مولانا تھانوی رحمة الله عليه کی
تفسیر کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اپنی رائے میں ترمیم
کرنا پڑی اور اب سمجھتا ہوں کہ اردو بھی بلند پایہ علمی
تحقیقات سے بہرہ ور ہے۔(۱۸) مولانا
عبداللہ صاحب فرماتے ہیں: آپ کی تحریر میں عالمانہ رنگ
اور جابجا ادب کی چاشنی ملتی ہے، مزید فرماتے ہیں:
بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ محسنین اردو ادب میں آپ کا مرتبہ
بلند ہے۔(۱۹)
علامہ
انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه
آپ بوحنیفہٴ وقت اور ثانیٴ
ابن حجر عسقلانی ہیں اور ذہانت و ذکاوت میں ضرب المثل ہونے کے
ساتھ ساتھ عربی، فارسی، اردو کے بہترین شاعر بھی تھے، جس
کی منظر کشی علامہ انظر شاہ کشمیری رحمة الله عليه یوں
کرتے ہیں: آپ نے پندرہ ہزار شعرکہے ہیں، جن میں سے گیارہ
سو پچپن عربی میں ہے۔ علامہ اپنے والد کی شعری
داستان یوں بیان کرتے ہیں: معلوم ہے کہ ان کا آبائی وطن
کشمیر ہے، جہاں اونچے اونچے کوہسار، شاداب مرغزار، حسین وادیاں،
بہتے ہوئے دریا، گرتے ہوئے آبشار،اودے اودے بادلوں کاہجوم، نرم ونازک نسیم
سحر کے جھونکے،وادی میں بکھرا ہوا حسن جمالیاتی ذوق
کو،اگر طبیعت موزوں ہے،بے اختیار ڈھلے ڈھلائے اشعار اور حسین
ترنم کی راہوں پر ڈال دیتا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور
مرحوم کی موزونیٴ طبع؛ بلکہ شعری ذوق نے انہیں شاعر
بنادیا۔(۲۰) نمونہٴ
شعر: شاہِ جہاں باز اگر ہمارا ہے # کیا غم ہے جب کہ وہ ہمارا ہے۔(۲۱)
مولانا
حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمة الله عليه
آپ ایک عالم متبحر اور عربی،
اردو کے بہترین ادیب تھے، چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں
کہ: آپ اپنے دور کے اہل قلم میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے،اس بات
کے شاہد دارالعلوم کے دو مجلے ”القاسم“ اور ”الرشید“ ہیں،جو آپ کی
ادارت میں منظر عام پر آتے تھے اور دونوں علمی حلقوں میں مقبول
تھے۔(۲۲) آپ کی علمی اثاثہ میں
اشاعتِ اسلام، تعلیمات اسلام، سیدالمرسلین، لامیة
المعجزات وغیرہ لافانی یادگار ہیں، آپ کے مجموعہٴ
مضامین ”اشاعت اسلام“ نے جومقبولیت پائی وہ اپنی مثال آپ
ہے۔(۲۳) جسے سیروتاریخ اور
تراجم کے ہزاروں صفحات کی ورق گردانی کے بعد نہایت سلیقے
سے مرتب کیاگیا ہے۔(۲۴)
علامہ
شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه
یگانہ طرز تحریر اور شاندار ادیب
ہونے کے باعث ہندوپاک کی مشہور شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی
رحمة الله عليه کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ نثر میں ایک
خاص طرز اور اسلوب کے موجد ومالک تھے، الفاظ اور تراکیب کے حسن اور اندازِ بیان
سے عبارت میں ایک مخصوص رنگ جھلکتا ہے، آپ اردو کے ممتاز ادیب
اور سحرالبیان خطیب تھے۔(۲۵) آپ کے مناقب میں ایک جگہ ہے کہ آپ بیان
میں ہر موقع ومحل کے مناسب اور موضوع کے مطابق اندازبیان اختیار
کرتے ہیں اور رنگ میں زور اور ہر مقام پر جدت وندرت پیدا کردیتے
ہیں۔(۲۶) آپ کے ادبی پہلو کو اجاگر
کرتے ہوئے مولانانورعالم خلیل امینی فرماتے ہیں: آپ زبان
وقلم کے شہسوار، ممتاز انشا پرداز تھے اور اردو کے بلند پایہ اور سحرانگیز
خطیب بھی تھے۔(۲۷)
مفتی
شفیع صاحب رحمة الله عليه
آپ مفتی اعظم، مایہ ناز مصنف ہیں،
آپ کی سب سے شاہکار تصنیف ”معارف القرآن“ ہے آپ جہاں دیگر علوم
وفنون پر پوری دستگاہ رکھتے ہیں وہیں مفتی صاحب کا ادبی
ذوق بھی ان کی تحریر سے نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔
بقول مولانا عبداللہ صاحب آپ کی فکر رسانے خاص خاص موقعوں پر آپ کواشعار
کہنے پر مجبور کیا۔(۲۸) فارسی
اور اردو سے خاصی دلچسپی تھی، شعروشاعری سے اپنی
مجلس کو زعفران زار بنائے رہتے۔ ششتہ وسادہ آسان زبان میں شاعری
کرتے، کلام انتہائی معنی خیز، عام فہم، اور مختصر ہوتا تھا، معنی
کی فراوانی، الفاظ کی ترسیلی اور بندش مضبوط ہوتی،
ترکیب میں سلاست وروانی موجزن ہوتی، ندرت اور البیلے
انداز سے معمور پندونصائح، عبرت آموز واقعات و حوادثات کی نشاندہی
کلام میں جابجا ملتی ہے، شعر وشاعری آپ کو وراثت میں ملی
تھی۔(۲۹)
شیخ
الادب مولانا اعزاز علی رحمة الله عليه
دارالعلوم دیوبند کے منظرنامے پر ایک
ممتاز نام مولانا اعزاز علی امروہوی کا بھی ملتا ہے، ان کا ادب
وشاعری سے قدیم واٹوٹ رشتہ ہے، نظم ونثر دونوں میدانوں میں
مولانا کی الگ چھاپ اور مضبوط گرفت ہے۔ جہاں انھوں نے نثری جلوہ
بکھیرا وہیں نظم وشاعری کے ذریعے اپنی قدآوری
کی جوت جگائی ہے، کلام کی رعنائی، حسن کی تازگی،
بیان کی شگفتگی، سچائی وآئینہ داری کے ساتھ
ساتھ عصری تاثرات، سماجی زندگی میں پیش آنے والے
واقعات، معشوقاؤں کی ناز برداریاں، عشق ومحبت کے ڈھکے چھپے احساسات کی
سادہ ترجمانی ان کو ایک صاحب طرز فنکار ثابت کرتی ہے۔(۳۰)
مولانا
نسیم احمد فریدی رحمة الله عليه
دارالعلوم دیوبند نے جن صاحب طرز ادیبوں،
ممتاز شاعروں کے ذریعے چمنستان شعرو ادب کی آبیاری کی،
ان میں سے ایک تابندہ نام مولانا نسیم احمد فریدی
رحمة الله عليه کا بھی لیا جاتا ہے، آپ کے اسلوب نگارش سے ایک
شاندار صاحب طرز، منفرد انشا پرداز کا عنوان ملتا ہے، آپ نے کئی درجن کتابوں
اور سینکڑوں مضامین کے ذریعے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ
کیا۔ آپ کے اندر شعرگوئی کی صلاحیت بھی
بدرجہا اتم موجود تھی، آپ کے کلام میں مضامین کی فراوانی
کے ساتھ ساتھ ندرت کا شاہکار، سادگی و شگفتگی کی ایک
پہچان نظر آتی ہے مضبوط بندش، سہل ترکیب، الفاظ کی ساخت و بناوٹ
سے کلام کی دوشیزگی میں چار چاند لگ گئے۔(۳۱)
حکیم
الاسلام قاری طیب صاحب رحمة الله عليه
آپ نے شاعری کے تعلق سے فطری
ذوق اور موزوں طبیعت پائی تھی، مستند سخنور تھے، حقیقت
پسندی کا اظہار واضح انداز میں کرتے۔ آپ کے کلام میں اگر
قدامت پسندی کی چھاپ ہے، تو جدت سے بھی گریز نہیں،
زبان میں سلاست و روانی قابل ذکر ہے۔ مولانا سالم صاحب لکھتے ہیں
کہ آپ کی شاعری، شوقِ شاعری کے بجائے واقعات و حادثات پر ذہنی
تاثر، حقیقی جزئیات اور تبادر ذہنی پر مبنی ہے۔(۳۲) آپ کی شاعری تصنع کے
بجائے سادگی وسلاست اور خلوص و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے
اور نزاکت خیال کے بجائے متصوفانہ رنگ میں ڈوبی ہوتی ہے۔(۳۳) بقول حضرت مولانا اسلم صاحب: حضرت
(حکیم الاسلام) کا صنفِ شعر سے دلچسپی کا سلسلہ زمانہ طالب علمی
سے جاری تھا اور اب تک نظموں کا ایک معقول ذخیرہ جمع ہوچکا ہے،
جو ”عرفانِ عارف“ کی زینت ہے۔(۳۴) شاعری کی طرح نثری نقوش بھی
اپنی مثال آپ ہیں۔ ہندوپاک کے پختہ لکھنے والوں میں آپ
کاشمار ہوتا تھا۔(۳۵)
مولانا
حامد الانصاری غازی رحمة الله عليه
حامدالانصاری غازی ان مقتدر ادیبوں
میں سے ہیں جنھوں نے اپنے مضامین میں سیاسی
تدبر و تفکر کا ثبوت دیا اور نہایت مربوط، شائستہ زبان میں عصری
واقعات وحالات پر شذرات لکھے۔ ان کی تحریروں میں سیاسی
شعور کی پختگی اور ان کے سیاسی نظریے اور رویے
کا استحکام نظر آتا ہے۔(۳۶) وہ ایک
عالم، محقق،ادیب، صحافی، شاعر، انشا پرداز، ہرمیدان میں
ممتاز تھے، ان کے قلم کی روانی دیدنی تھی۔
غازی صاحب کی جوان، تازہ، دلکش، خوب صورت، فکر انگیز اور نتیجہ
خیز تحریروں نے ان کی فکری، ذہنی، علمی، تحقیقی
صلاحیتوں کا ہر کسی کو قائل کیا۔ ان کے اندر انداز نگارش،
بلنداسلوب،بالغ نظری، عمیق مطالعہ نے ان کو اردو کے بلند پایہ
صحافیوں اور قلم کاروں میں لاکھڑا کیا۔(۳۷)
مولانا
سعید احمد اکبر آبادی رحمة الله عليه
مولانا اکبر آبادی اپنے دور کی
ایک علمی اورادبی شخصیت تھی، ان کی ادبی
حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر
فرماتے ہیں: وہ اپنے علمی مقام، انشاء و ادب کے کمالات اور تحقیق
اور زرف نگاہی کی انفرادیت کے باوجود اپنی ظاہری
وضع قطع، چال اور لباس وغیرہ سے لوگوں کو متاثر نہیں کرپائے۔
ماہنامہ ”برہان“ دہلی کے مدیر کی حیثیت سے ان کے
قلمی آبگینوں کو ”نظرات“ کے عنوان سے مدتوں پڑھا اور سلاست و روانی
اور فکروخیال کی وسعت کو محسوس کیا، ان کی تحریریں
اسلوب وادا کے اعتبار سے دل کو بھاتی تھیں۔ ان کے یہاں
ادب کی چاشنی،انشاء کی بلندی، فکر کی سلامتی
اور معلومات کی فراوانی تھی۔ ہر تحریر میں ان
کا علم جھلکتا اور ان کے خیالات کی روانی صاف نظر آتی۔(۳۸)
مفتی
عتیق الرحمن رحمة الله عليه
آپ کی اتنی سی تعریف
کافی ہے کہ آپ ندوة المصنّفین جیسے عظیم ادارے کے بانی
ہیں۔ بقول علامہ انظر شاہ صاحب اپنے خاص سلیقہ، قرینہ،
بالغ شعور، بھرپور تندہی سے اس ادارے کو وہ حیثیت دی کہ دیوبنداس
پر فخرکرسکتا ہے۔(۳۹) اور
دوسری جگہ ہے کہ ”آپ کا فکرِ نازک اورآپ کے انشاء پرداز قلم کا نشانہ اردو کی
تعمیر میں مصروف رہتا اور جب شعروسخن کا سلسلہ چلتا تو آپ کے برمحل
اور برجستہ اشعار سے مجلس باغ وبہار بن جاتی۔(۴۰) آپ نے بڑی معرکة الآرا کتابیں تصنیف
کیں اور مولانا ادروی نے فرمایاکہ برہان جیسا معیاری
رسالہ اسی ادارے سے نکلتا تھا۔(۴۱)
حضرت
مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه
حضرت شیخ الاسلام رحمة الله عليه عظیم
خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے قلم کار بھی تھے۔ آپ کے علمی
وسیاسی کارناموں پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے؛ لیکن آپ کے
ادبی پہلو پر نہ کے برابر لکھا گیا، اس مختصر خاکے میں حضرت مدنی
کے طرز تحریر، لسانی اسلوب، شعری وادبی ذوق کی ہلکی
سی جھلک پیش ہے۔
آپ کی نثر میں سادگی،
سلاست وشفافیت بدرجہ اتم موجود ہے، جس پر لکھنے میں قلم برداشتہ؛ لیکن
بیان ایسے پیرایے میں کہ مشکل سے مشکل بحث قاری
کے فوراً ذہن نشین ہوجائے۔ کبھی کبھی موضوع کے مطابق
اشعار بھی لکھتے۔(۴۲)
سلطان
القلم مولانا مناظراحسن گیلانی رحمة الله عليه
قیمتی تصانیف، بے
شمارعلمی خدمات، تدریسی خصوصیات، اعتدال فکر، پاکیزگیٴ
مذاق علوم حدیث و قرآن اور ان سے متعلقہ مضامین کے علاوہ عصری
معلومات اور دورِ حاضر کی علمی تحقیقات کے حوالے سے ان کا مقام
کسی تعارف کا محتاج نہیں۔(۴۳) آپ کا ادبی کارنامہ ہی آپ کی شخصیت
کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ جہاں آپ کی تحریر علوم
ومعارف کی آئینہ دار ہے، وہیں اس میں ادب کے ستھرے ذوق کا
بھی پتہ چلتا ہے۔(۴۴) آپ کی
تحریر میں صحفِ سماوی کا انداز، خطیبوں کا جوش و برجستگی،
عشاق کی مستی و وارفتگی، عقل وجذبات کی لطیف آمیزش
ہوتی ہے۔(۴۵) آپ قلم
کی روانی اور ذہن وفکر کی بلندپروازی میں یگانہ
روزگار تھے، جس موضوع اور عنوان پر قلم اٹھاتے،ایسا معلوم ہوتا کہ سمندر ہے،
جوش ماررہا ہے۔ مولانا عبدالباری رحمة الله عليه آپ کے بارے میں
فرماتے ہیں: تقریر سے آگے تحریر و تصنیف کو دیکھئے
تو گیلانی کا قلم اس میدان میں بھی بڑے بڑے ہم
چشموں سے پیچھے نہیں، نہ کمًّا نہ کیفاً۔(۴۶) آپ کی تحریر کے سلسلے میں
جناب غلام محمد لکھتے ہیں: (آپ کی) ہر تحریر میں بے ساختگی،
زور استدلال اور سوز وگداز کچھ ایسا موجود ہے کہ ربطِ کتاب ٹوٹنے پر بھی
کتاب چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔(۴۷) مولانا نسیم احمد فریدی رحمة الله
عليه ان کے گلشنِ ادب کی جہت بندی اور سحرآفرینی کا اظہار
یوں کرتے ہیں: ان کی زبان ”قلعہ معلی“، ”دارالعلوم“،
”عثمانیہ یونیورسٹی“ اور ”صوبہ بہار“ کے علمی
گھرانوں کی ملی جلی خصوصیات کی آئینہ دار تھی۔
اردو ادب کو آپ کی انفرادیت نے ایک نئی جہت عطا کی،
تحریر کا مخصوص لب ولہجہ خود آپ کا تھا اور اس میں کسی کے پیروکار
نہیں بلکہ خود اس کے موجد تھے۔(۴۸) مولانا عبدالماجد دریاآبادی تحریر
فرماتے ہیں: (مولانا گیلانی) ایک خاص طرز وانشا کے مالک
تھے، اس میں کسی کے مقلد نہیں، خود اس کے موجد تھے۔(۴۹) آپ کا طرز تحریر کئی
خصوصیات کا آئینہ دار ہے، بے ساختگی، برجستگی و پختگی،
قوت استدلال و استخراج، ایجاز واطناب، استعارات وکنایات اور بہت کچھ
اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔(۵۰) وضاحتِ
عبارت، متانتِ فکر نے آپ کی تحریروں کو ادبی وعلمی دونوں
حلقوں میں اعتبار بخشا۔ سید سلیمان ندوی، عبدالماجد
دریاآبادی، ماہرالقادری جیسے سخن فہم، ادب شناس نے ان کی
تحریروں میں نئے تموج اور ان کی لفظیات کی جولانی
کی ستائش کی ہے اور ان کے طرزِ اظہار کو یکسر مختلف اور منفرد
قرار دیا ہے۔(۵۱)
مولانا
امین الرحمن عامر عثمانی رحمة الله عليه
دارالعلوم دیوبند نے اپنی ادبی،
صحافتی سفر میں لاتعداد افراد پیدا کیے، اسی گلشنِ
ادب وصحافت میں ایک شجرِ علم وادب، صحافت ونقد مولانا عامرعثمانی
رحمة الله عليه ہیں، جن کی ذات محتاج تعارف نہیں، وہ اپنے وقت
کے امام صحافت، بے باک مبصر، لاجواب شاعر اور صحت مند ناقد تھے۔ شعری،
ادبی، تحقیقی ذوق فطری تھا، نیز برجستگی،
متانت، سنجیدگی ان کو ورثہ میں ملی تھی، زبان وادب
کی ہر صنف پر ان کی گرفت تھی۔(۵۲)بقول مولانا نسیم اختر شاہ قیصر: عامر
عثمانی جتنے اعلیٰ پایے کے ادیب اور قلمکار تھے
اتنے ہی بلند فکر کے شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری ایک
مستقل موضوع کی حیثیت رکھتی ہے۔(۵۳)
مولانا
احسان اللہ تاجور رحمة الله عليه
علامہ تاجور برادر قاسمیت کی
شعری دنیا کے شہنشاہ ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ سلطان القلم
اور ادیب دوراں بھی ہیں، اس کا بخوبی اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی ادارت میں دسیوں رسائل وماہنامے
نکلتے تھے، اورملت کی دینی، تعلیمی، ادبی،
تاریخی، سیاسی گویا ہر پہلو سے تشنگی بجھانے
میں ایک مدت تک کام کرتے رہے۔ مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں:
آپ کی ادبیت اور شعریت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ
بات کافی ہے کہ خود حکومت نے آپ کو شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا۔(۵۴)
علامہ تاجور ان چند شخصیتوں میں
سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لیے
وقف کردی مگر پھر بھی ادبی دنیا کے لیے اجنبی
ٹھہرے، تاریخ لکھنے والوں نے بھی انہیں بھلادیا، صرف
خاصانِ ادب ہی ان سے واقف ہیں۔ ن، م، راشد، اختر شیرانی،
احسان دانش، قیوم نظر، جگن ناتھ آزاد کو کون نہیں جانتا، مگر واقف نہیں
تو صرف ان سے جنھوں نے ان لوگوں کو جوہرِ قابل بنایا۔(۵۵) ان کی ادبی خدمات کو
بھلادینا ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔
مولانا
رضوان القاسمی رحمة الله عليه
مولانا رضوان القاسمی کا شمار اردو
کے اہم نثر نگاروں میں ہوتا ہے، عربی، فارسی، اردو ادبیات
نے ان کی تحریر کو تمکنت، تمازت اور جلالت عطا کی۔ وضاحت
فکر، سلاست اظہار نے نثر میں مقناطیسی کیفیت پیدا
کی۔ لفظیات تراکیب اور عنوانات کے حسن انتخاب کی
وجہ سے ان کی نثر کے شیدائیوں کا ایک بڑا حلقہ ہے۔(۵۶)
مفتی
کفیل الرحمن نشاط عثمانی رحمة الله عليه
دیوبند کی ادبی وشعری
زندگی میں ایک نام بہت نمایاں رہا ہے، جن کے شعری
افکار نے اعتبار حاصل کیا ہے، وہ نام مفتی کفیل الرحمن نشاط
عثمانی رحمة الله عليه کا ہے۔ ان کے اشعار میں شدت احساس، علوئے
فکر، خیال آفرینی اور قوتِ اظہار کے ساتھ ساتھ صحنِ میکدہ
کا شعور، شیشہٴ مئے کی نزاکت اور بادِ صبح کا پیغام موجود
ہے۔(۵۷) چنانچہ مولانا عبداللہ عثمانی
لکھتے ہیں: ان کی شاعری ہمارے سماج اور ہماری زندگی
کی تصویر ہے۔ گہرے تجربے، فکر کی قوت، جذبات کی
شدت، شعری نزاکتوں، فنی باریکیوں نے ان کو جدید
شعراء کی صف میں لاکھڑا کیا۔(۵۸) مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مزید
لکھتے ہیں: ان کے اشعار میں ایک رنگ اور کیفیت ہے،
غالب کی زبان میں دل گداختہ رکھتے ہیں، فکر وسخن کے تمام
ترتقاضوں، نزاکتوں اور باریکیوں پر ان کی نظر ہے۔(۵۹)
علامہ
انظر شاہ کشمیری رحمة الله عليه
شاہ صاحب کی ذات شجرِ دارالعلوم کی
ادبی شاخ کا ایک حسین گل ہے؛ جس نے اپنی خوشبو سے گلستان
علم وادب کو مشکبار کردیا۔ آپ کی نثر میں مصطفی
کمال کی طرح جذبات کی برانگیختگی کا عنصر بھی ہے،
سعد زغلول کی طرح ذہانت اور طلاقت لسانی، لطفی سید کی
طرح منطقیت ومعروضیت، کئی اسالیب کا امتزاج، مسجع و مقفی
نثر اور ترسیلی قوت سے معمور اور سب سے بڑی خوبی یہ
کہ وہ دوسروں کے خرمن کے خوشہ چیں نہیں؛ بلکہ خود تخمی کے قائل
ہیں۔ ان کی نثر کا ساختیائی تجزیہ کیا
جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ نثر میں شعری صنائع کا ہنرمندانہ
استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ تلمیحات، علامات، تجنیس
و تعلیل اور دیگر صنائع و بدائع، ان کے لسانی ادراک و عرفان،
علومِ بلاغت و بیان پر عبور کے ثبوت ہیں اور مطالعہ کی وسعت کا
غماز بھی۔(۶۰)
ان حضرات کے علاوہ بھی علمائے دیوبند
ایک طویل فہرست ہے جن کا ذکر قلت صفحات کی بناء پر تفصیلاً
ممکن نہیں؛ لیکن اردو ادب کے ارتقاء میں ان کے کردار کو فراموش
کردینا کسی جرم عظیم سے کم نہیں، چنانچہ مولانا عبداللہ
صاحب نے اپنی کتاب ”علمائے دیوبند اور اردو ادب“ میں مولانا
ذوالفقار علی، مولانا احمد صاحب رحمة الله عليه وغیرہ کا تذکرہ کیا
ہے اور ان کی ادبی حیثیت کو اجاگرکیاہے، جس سے پتہ
چلتا ہے کہ یہ حضرات اپنی گوناگوں علمی، سیاسی
مصروفیات کے باوجود اپنے زبان وقلم کے ذریعے بھی امت مرحومہ کی
دستگیری ورہنمائی فرماتے تھے۔
اسی طرح مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی
رحمة الله عليه، مولانا محمد میاں صاحب رحمة الله عليه، مولانا قاضی
اطہر مبارکپوری رحمة الله عليه، مولانا منظورنعمانی رحمة الله عليه
اپنے وقت کے یگانہ روزگار اور یکتائے زمانہ گلشن ادب کے خوبصورت، جاذب
نظر اور خوشبودار پھول تھے۔ قلت صفحات کے باوجود دور حاضر کے ادبائے
دارالعلوم کا ذکر نہ کرنا ان کے حق میں نا انصافی ہوگی، ان
ادباء میں؛ جنھوں نے اپنے نوکِ قلم کی روانی وبرجستگی سے
گیسوئے اردو کو سنوار کر اس کے حسن میں اضافہ کیا، مولانا سالم
صاحب قاسمی، مولانا ریاست علی ظفر، مولانا نور عالم خلیل
امینی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا کفیل
الرحمن علوی، مولانا افضال الحق قاسمی، مولانا ندیم الواجدی،
مولانا اسرارالحق قاسمی،علامہ قمر عثمانی، نسیم اخترشاہ قیصر،
مولانا شاہین جمالی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی
سلمان منصورپوری، مولانا سالم جامعی، مولانا وارث علی مظہر،
مولانا انیس الرحمن آزاد، مولانا حقانی القاسمی، مولانا نظام
الدین اسیرادروی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حرفِ
آخر
مختصر یہ کہ نہ صرف اردو ادب کے
ارتقاء میں علمائے دیوبند کا کردار رہا ہے، بلکہ اردو کی بقاء
اور اس کی لطافت و پاکیزگی، شیرینی و چاشنی،
دلکشی و جاذبیت، سحر انگیزی و نزاکت میں بھی
انھوں نے اردو کو ایک جہت عطا کی۔ آج ضرورت ہے اردو کے ان بیش
بہا لعل و گوہر کو سامنے لانے اور ان کے نام وکام کو اجاگر کرنے کی۔
***
حواشی:
(۱)
روزنامہ
الجمعیة دہلی دارالعلوم نمبر ۲۶/مارچ ۱۹۸۰/،ص:۶۰۔ (۲) سوانح علمائے دیوبند،ص:۸۸۔
(۳) نقش
دوام،ص:۲۴۷۔ (۴) علمائے
دیوبند اور اردو ادب ،ص:۱۱۔
(۵) تاریخ
دارالعلوم،ج:۱،ص:۳۵۔ (۶) علمائے
دیوبند اور اردو ادب،ص:۱۱-۱۲۔
(۷) سوانح
قاسمی،ج:۱،ص:۲۶۷۔
(۸) علمائے
دیوبند اور اردو ادب،ص:۲۰-۲۱ وچند
مشاہیر،ص:۳۱۔
(۹) دارالعلوم
دیوبند ۔ ادبی شناخت نامہ،ج:۱،
ص:۵۲۔
(۱۰) علمائے
دیوبند اوراردو ادب،ص:۳۸۔
(۱۱) ایضاً۔
(۱۲) چند مشاہیر،ص:۵۲۔ (۱۳)
اسیران
مالٹا،ص:۱۰۔
(۱۴) شیخ
الہند حیات اور کارنامے۔
(۱۵) علمائے
دیوبنداور اردو ادب، ص:۵۰-۵۱۔
(۱۶)
ندائے
شاہی نعت نبی نمبر،ص:۱۹۰۔
(۱۷) کاروان
رفتہ،ص:۲۵۔ (۱۸)
نقش
دوام،ص:۷۰۔
(۱۹) علمائے
دیوبند اور اردو ادب،ص:۷۴۔
(۲۰)
نقش
دوام،ص:۲۴۸۔
(۲۱) خانوادہ
شاہی،ص:۱۹۔ (۲۲)
علمائے
دیوبند اور اردو ادب،ص:۸۰۔
(۲۳) چند
مشاہیر،ص:۵۸۔ (۲۴) اشاعت
اسلام،ج:۱، ص:۱۷۔
(۲۵) چندمشاہیر،ص:۶۹۔ (۲۶) نقش
دوام،ص:۱۱۰۔
(۲۷) وہ
کوہ کن کی بات،ص:۲۳۰۔ (۲۸)
علمائے
دیوبند اور اردو ادب ،ص:۱۵۵۔
(۲۹) مسودہ
انتخاب کلیات علمائے دیوبند ونسیم سحر مجموعہ کلام۔
(۳۰) مسودہ
انتخاب کلیات علمائے دیوبند ونسیم سحر مجموعہ کلام۔ (۳۱) ایضاً۔
(۳۲) ایضاً۔
(۳۳) چند
مشاہیر،ص:۷۲۔ (۳۴)
ہفت
روزہ اشاعت حق،ص:۲۷۔
(۳۵) چند
مشاہیر،ص:۸۰۔ (۳۶) دارالعلوم
دیوبند- ادبی شناخت نامہ،ص:۱۰۱۔
(۳۷) چند
نامور،ص:۱۰۰-۱۰۲۔ (۳۸) جانے
پہچانے لوگ،ص:۳۱۔
(۳۹)
کاروان
رفتہ،ص:۸۱۔ (۴۰) نقش
دوام،ص:۷۶۔
(۴۱) کاروان
رفتہ،ص:۱۶۲۔ (۴۲)
چند
مشاہیر،ص:۶۵۔
(۴۳) ہزار سال پہلے،ص:۱۲۔ (۴۴) مناظرگیلانی،ص:۶۵۔
(۴۵)
الفرقان
افادات گیلانی نمبر ۱۹۵۷/۔
(۴۶)
حیات
گیلانی،ص:۲۰۱۔
(۴۷)
مقالات
احسانی،ص:۱۳۔
(۴۸) مناظرگیلانی،ص:۶۶۔
(۴۹)
وفیات
ماجدی،ص:۷۷۔ (۵۰)
مناظرگیلانی،ص:۶۸۔
(۵۱) دارالعلوم
دیوبند- ادبی شناخت نامہ،ص:۷۴۔
(۵۲) چند
نامور ،ص:۵۰-۵۱۔
(۵۳) میرے
عہد کے لوگ،ص:۱۵۰۔ (۵۴) علمائے
دیوبند اور اردو ادب،ص:۱۴۰۔
(۵۵)
دارالعلوم
دیوبند- ادبی شناخت نامہ،ص:۱۳۱۔ (۵۶) ایضاً۔
(۵۷)
شناسہ،ص:۱۲-۱۵۔ (۵۸)
چند
نامور،ص:۱۱۵۔
(۵۹)
میرے
عہد کے لوگ،ص:۱۲۹۔ (۶۰) دارالعلوم
دیوبند- ادبی شناخت نامہ،ص:۷۹۔
***
_______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 12 ، جلد: 93 ذى الحجه 1430 هـ مطابق دسمبر 2009ء